English
back GHALIB
محرم نہیں ہے تو ہی نوا ہائے راز کا
محرم نہیں ہے تو ہی نوا ہائے راز کا
یاں ورنہ جو حجاب ہے، پردہ ہے ساز کا
رنگِ شکستہ صبحِ بہارِ نظارہ ہے
یہ وقت ہے شگفتنِ گل ہائے ناز کا
تو اور سوئے غیر نظر ہائے تیز تیز
میں اور دُکھ تری مِژہ ہائے دراز کا
ہیں بسکہ جوشِ بادہ سے شیشے اچھل رہے
ہر گوشۂ بساط ہے سر شیشہ باز کا
تاراجِ کاوشِ غمِ ہجراں ہوا، اسدؔ
سینہ، کہ تھا دفینہ گہر ہائے راز کا
Contributor’s notes
Translation notes
گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگیِ جا کا
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
محرم نہیں ہے تو ہی نوا ہائے راز کا
دوست غمخواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا