English
back GHALIB
گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگیِ جا کا
گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگیِ جا کا
گہر میں محو ہوا اضطراب دریا کا
یہ جانتا ہوں کہ تو اور پاسخِ مکتوب
مگر ستم زدہ ہوں ذوقِ خامہ فرسا کا
حنائے پائے خزاں ہے بہار اگر ہے یہی
دوامِ کلفتِ خاطر ہے عیش دنیا کا
ہنوز محرمیِ حسن کو ترستا ہوں
کرے ہے ہر بُنِ مو کام چشمِ بینا کا
دل اس کو، پہلے ہی ناز و ادا سے، دے بیٹھے
ہمیں دماغ کہاں حسن کے تقاضا کا
نہ کہہ کہ گریہ بہ مقدارِ حسرتِ دل ہے
مری نگاہ میں ہے جمع و خرچ دریا کا
فلک کو دیکھ کے کرتا ہوں اُس کو یاد اسدؔ
جفا میں اُس کی ہے انداز کارفرما کا
Contributor’s notes
Translation notes
گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگیِ جا کا
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
محرم نہیں ہے تو ہی نوا ہائے راز کا
دوست غمخواری میں میری سعی فرمائیں گے کیا